حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله {غیروں کی نظر میں}
بسم الله الرحمن الرحیم
مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں ایک عجیب بات ہے اہلحدیث عمومآ نہایت متشدد ہوتے ہیں - تھوڑی سی بات پر سخت سے سخت نکتہ چینی کے خوگر ہوتے ہیں {داؤد غزنوی ص 18}یہی وہ نفسیات ہے جس پر قرآن پاک نے "ویل لکل ھمزۃ لمزۃ"فرمایا ہے اور "ولا تطع کل حلاف" {الایة}
نمبر {01 مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں "ائمه دین نے جو دین کی خدمت کی ہے امت قیامت تک ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی ، ہمارے نزدیک ائمه دین کے لئے جو شخص سوء ظن رکھتا ہے یا زبان سے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کرتا ہے یہ اس کی شقاوت قلبی کی علامت ہے اور میرے نزدیک اسکے سوء خاتمہ کا خوف ہے ہمارے نزدیک ائمه دین کی ہدایت و درایت پر امت کا اجماع ہے {داؤد غزنوی ص373}
نمبر {02} ائمه کرام کا ان {مولانا داؤد غزنوی} کے دل میں انتہائی احترام تھا حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کا اسم گرامی بے حد عزت سے لیتے - ایک دن میں {مولانا محمد اسحق} ان کی خدمت میں حاضر تھا - جماعت اہلحدیث کی تنظیم کے متعلق گفتگو شروع ہوئی - بڑے دردناک لہجہ میں فرمایا - مولوی اسحاق ! جماعت اہلحدیث کو حضرت امام ابو حنیفه رحمه الله کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ہر شخص ابو حنیفه ، ابو حنیفه کہہ رہا ہے کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابو حنیفه کہہ دیتا ہے - پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین {03} حدیثیں جانتے تھے یا زیادہ سے زیادہ گیارہ {11} - اگر کوئی بہت بڑا احسان کرے تو وہ انہیں سترہ {17} حدیثوں کا عالم گردانتے ہے - جو لوگ اتنے جلیل القدر {تابعی} امام کے بارہ میں یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد و یکجہتی کیونکر پیدا ہوسکتی ہے "یا غربة العلم انما اشکوبثی و حزنی الی الله" {داؤد غزنوی ص 127}
حضرت مفتی حسن نے ایک بار مولانا عبدالجبار غزنوی کی ولایت کا ایک واقعہ سنایا - وہ واقعہ یوں تھا کہ امرتسر میں ایک محلہ تیلیاں تھا جس میں اہلحدیث حضرات کی اکثریت تھی - وہاں عبد العلی نامی ایک مولوی امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے - وہ مدرسہ غزنویہ میں مولانا عبدالجبار غزنوی سے پڑھا کرتے تھے - ایک بار مولوی عبد العلی نے کہا کہ ابوحنیفه سے تو میں اچھا ہوں اور بڑا ہوں کیونکہ انہیں صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں اور مجھے ان سے کہیں زیادہ یاد ہیں - اس بات کی اطلاع مولانا عبد الجبار کو پہنچی ، وہ بزرگوں کا نہایت ادب و احترام کیا کرتے تھے - انہوں نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا انہوں نے حکم دیا کہ اس نالائق {عبد العلی} کو مدرسے سے نکال دو وہ طالب علم جب مدرسے سے نکالا گیا تو مولانا عبد الجبار غزنوی نے فرمایا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ عنقریب مرتد ہوجاۓ گا - مفتی محمد حسن "راوی" ہیں {اس واقعہ کے} کہ ایک ہفتہ نہ گزرا تھا کہ وہ شخص مرزائی ہوگیا اور لوگوں نے اسے ذلیل کرکے مسجد سے نکال دیا - اس واقعہ کے بعد کسی نے مولانا عبد الجبار غزنوی سے سوال کیا حضرت! آپ کو یہ کیسے علم ہوگیا تھا کہ وہ عنقریب کافر ہوجائے گا - فرمانے لگے کہ جس وقت مجھے اسکی گستاخی کی اطلاع ملی اس وقت بخاری شریف کی یہ حدیث میرے سامنے آگئی کہ "من عادی لی ولیا فقد آذنته بالحرب" {حدیث قدسی} جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں - میری نظر میں امام ابو حنیفه رحمه الله "ولی الله" تھے - جب الله کی طرف سے اعلان جنگ ہوگیا تو جنگ میں ہر فریق دوسرے کی اعلی چیز کو چھینتا ہے اس لئے ایسے شخص کے پاس ایمان کیسے رہ سکتا تھا {داؤد غزنوی ص 191،192}
نمبر {04} نوٹ: اسی طرح امرتسر میں سب سے پہلے عمل بالحدیث شروع کرنے والے حافظ محمد یوسف صاحب ڈپٹی کلکٹر پنشنر مرزا غلام احمد قادیانی کے موید و حامی بن گئے {اشاعة السنة ص 114 ج 21}
نمبر {05} مولانا محبوب احمد صاحب امرتسری لکھتے ہیں: جہاں تک مجھے علم ہے وہ یہ ہے کہ امرتسر و گرد و نواح میں جس قدر مرتد عیسائی ہیں یہ پہلے غیرمقلد ہی تھے {الکتاب المجید ص 8}
نمبر {06} مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے دل میں بھی امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے بارہ می ایک دفعہ کچھ غبار آگیا تھا ، خود لکھتے ہیں: {میں نے} حضرت امام صاحب رحمه الله کے متعلق تحقیقات شروع کیں تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر کچھ غبار آگیا جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا یکایک میرے سامنے گھپ اندھیرا چھاگیا - گویا "ظلمات بعضها قوق بعض" کا نظارہ ہوگیا معآ خدا تعالی نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے بدظنی کا نتیجہ ہے اس سے استغفار کروں میں نے کلمات دھرانے شروع کئے وہ اندھیرے فورآ کافور ہوگئے اور ان کے بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کردیا - اس وقت سے میری حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے حسن عقیدت اور زیادہ بڑھ گئی اور میں ان شخصوں سے جن کو حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے حسن عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں کہ میری اور آپ کی مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالی منکرین معارج قدسیہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے "أفتما رونه علی مایری" میں نے جو کچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے "ھذا والله ولی الهدايث خاتمة الکلام" اب میں اس مضمون کو ان کلمات پر ختم کرتا ہوں اور اپنے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وه بزرگان دین سے خصوصا ائمه متبوعین سے حسن ظن رکھیں اور گستاخی اور بے ادبی سے پرہیز کریں کیونکہ اس کا نتیجہ ہر دو جہاں میں مؤجب خسران و نقصان ہے "نسئل الله الکریم حسن الظن والتادب مع الصالحین ونعوذ بالله العظیم من سوء الظن بهم فانه عرق الرفض والخروج و علامة المعاقین و لنعم ماقیل"
از خدا خواہیم توفیق ادب
بے ادب محروم شد
از لطف ر
{تاریخ اہلحدیث صفحہ 79}
نمبر {09} مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے فرمایا مولانا ثناء الله مرحوم امرتسری نے مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں ، میں کانپور میں مولانا احمد حسن صاحب کانپوری سے علم منطق کی تحصیل کرتا تھا اختلاف مذاق و مشرب کے سبب سے احناف سے میری گفتگو رہتی تھی - ان لوگوں نے مجھ پر یہ الزام تھوپا تھا کہ تم عرفی اہلحدیث لوگ ائمه دین کے حق میں بے ادبی کرتے ہو میں نے اس کے متعلق حضرت میاں صاحب مرحوم دہلوی یعنی شیخ الکل حضرت سید نذیر حسین صاحب مرحوم سے دریافت کیا تو آپ نے جواب میں کہا کہ ہم ایسے شخص کو جو ائمه دین کے حق میں بے ادبی کرے چھوٹا رافضی جانتے ہیں ، علاوہ بریں میاں صاحب مرحوم {معیار الحق} میں امام صاحب رحمه الله کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں - ملاحظہ فرمائے "إمامنا و سیدنا أبوحنیفة النعمان أفاض الله علیه شابیب العفو والغفران" نیز فرماتے ہیں ان {امام صاحب} کا مجتہد ہونا اور متبع سنت اور متقی اور پرہیزگار ہونا کافی ہے - ان کے فضائل میں آیت کریمه "ان اکرمکم عند الله اتقاکم" زینت بخش مراتب ان کے لئے ہیں {حاشیہ تاریخ اہلحدیث ص 80}
نمبر {08} مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی فرماتے - ہیں ، ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں اور اپنے صالح اساتذہ جناب مولانا ابو عبد الله غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اور جناب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم محدث وزیر آباد کی صحبت و تلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصآ حضرات ائمه متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہی {تاریخ الحدیث ص 79}
نمبر {09} مولانا محمد ابراہیم صاحب حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی کے متعلق لکھتے ہیں آپ ائمه دین کا بہت ادب کرتے تھے - چناچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ائمه دین اور خصوصآ امام ابو حنیفه رحمه الله کی بے ادبی کرتا ہے ، اسکا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا {تاریخ اہلحدیث ص 428}
نمبر {10} نعیم بن حماد خزاعی حضرت امام بخاری رحمه الله کے اساتذہ میں ہیں "وضع کتبا فی الرد علی الحنفیه" جس نے حنفیوں کے رد میں کئی کتابیں تصنیف کیں - یہ شخص امام صاحب کے حسد میں یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ جھوٹی حدیثیں بھی گھڑلیا کرتا تھا اور امام صاحب کی عیب گوئی میں جھوٹی حکایتیں بھی گھڑلیتا جو سب کی سب جھوٹ ہیں {میزان الاعتدال ص 536 ج 2 ، تہذیب التهذيب صفحہ 463 ج 2 ، نهاية السئول فی رواة السنة الاصول بحوالہ تاریخ اہلحدیث ص70 {داؤد غزنوی ص 378} مولانا سیالکوٹی نے مکمل بحث کے بعد لکھا کہ نعیم کی شخصیت ایسی نہیں کہ اسکی روایت کہ بناء پر حضرت امام اعظم ابوحنیفه رحمه الله جیسے بزرگ "امام" کے حق میں بدگوئی کریں جن کو حافظ شمس الدین ذہبی رحمه الله جیسے ناقد الرجال "امام اعظم" کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں - حافظ ابن کثیر "البدایہ" میں آپکی نہایت تعریف کرتے ہیں ، آپکے حق میں لکھتے ہیں "احد ائمة الإسلام و السادة الأعلام وأحد أرکان العلما وأحد الائمة الأربعة أصحاب المذاھب المتبوعة الخ - نیز امام یحیی بن معین رحمه الله سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ آپ {ابو حنیفه رحمه الله} ثقہ تھے ، اہل الصدق سے تھے کذب سے مہتم نہ تھے ، نیز عبد الله بن داؤد الخریبی رحمه الله سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا لوگوں کو مناسب ہے کہ اپنی نمازوں میں حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے لئے دعا کیا کریں کیونکہ انہوں نے ان پر فقہ اور سنن {نبویہ} کو محفوظ رکھا {البدایہ صفحہ ص 107 ، تاریخ اہلحدیث} یہ شخص {نعیم بن حماد} گرفتار ہوا اور وہیں فوت ہوا "فجر باقیادة" {ہتھکڑیوں سمیت} "فالقی فی حضرة ولم یکفن ولم یصل علیه فعل ذالك به صاحب ابن داؤد" {تاریخ بغداد ص 314} دیکھئے گستاخ امام ، نمازہ جنازہ اور کفن اور قبر تک سے محروم رہا
نمبر {11} عالم باعمل فاضل اکمل حضرت مولانا سید تجمل حسین رحمه الله بہاری لکھتے ہیں: ایک غیرمقلد مولوی محمد ابراہیم صاحب آروری مکہ مکرمہ گئے اور حضرت قبلہ عالم مولانا سید شاہ محمد علی صاحب رحمه الله مونگیری بھی وہیں تھے - مولانا محمد ابراہیم صاحب نے کہا کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی مجلس خواب میں میری حاضری ہوئی اور مجلس مبارک میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله بھی تشریف فرما تھے جناب رسالت مآب صلی الله علیه وسلم نے مجھے فرمایا کہ تم ان یعنی حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے بدظن ہو قصور معاف کراؤ - میں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے قدموں پر گرکر معاف کرایا {کمالات صفحہ 17}
نمبر {12} ایک غیرمقلد طالب علم مدرسہ دیوبند میں پڑھتا تھا - اس نے حضرت امام محمد رحمه الله کی شان میں گستاخی کی اس پر اور طالب علموں نے اسے پیٹ ڈالا - اس واقعہ کی مولانا نذیر حسین سے شکایت بھی کی حضرت والا نے فرمایا کہ اس نے امام محمد رحمه الله کی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کئے تھے ، اس پر طلباء کو غصہ آگیا یہ سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ واقعی یہ اس کی بڑی بے جا حرکت تھی {داؤد غزنوی صفحہ 380}
نمبر {13} آرہ میں بیٹھے ہوئے ایک غیرمقلد نے دوران گفتگو حضرت ابن ہمام رحمه الله کی کچھ تنقیص کی - مولانا نذیر حسین صاحب نے اسے ڈانٹا کہ یہ بڑے لوگ تھے ہمارا منہ نہیں کہ ان کی شان میں کچھ کہہ سکیں {داؤد غزنوی صفحہ 380} "الناس فی ابی حنیفة حاسد او جاھل" یعنی حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے حق میں بری رائے رکھنے والے کچھ لوگ تو حاسد ہیں اور کچھ انکے مقام سے بے خبر ہیں {داؤد غزنوی صفحہ 378}
انتخاب : تجلیات صفدر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 211 سے 217 تک
بسم الله الرحمن الرحیم
مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں ایک عجیب بات ہے اہلحدیث عمومآ نہایت متشدد ہوتے ہیں - تھوڑی سی بات پر سخت سے سخت نکتہ چینی کے خوگر ہوتے ہیں {داؤد غزنوی ص 18}یہی وہ نفسیات ہے جس پر قرآن پاک نے "ویل لکل ھمزۃ لمزۃ"فرمایا ہے اور "ولا تطع کل حلاف" {الایة}
نمبر {01 مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں "ائمه دین نے جو دین کی خدمت کی ہے امت قیامت تک ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی ، ہمارے نزدیک ائمه دین کے لئے جو شخص سوء ظن رکھتا ہے یا زبان سے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کرتا ہے یہ اس کی شقاوت قلبی کی علامت ہے اور میرے نزدیک اسکے سوء خاتمہ کا خوف ہے ہمارے نزدیک ائمه دین کی ہدایت و درایت پر امت کا اجماع ہے {داؤد غزنوی ص373}
نمبر {02} ائمه کرام کا ان {مولانا داؤد غزنوی} کے دل میں انتہائی احترام تھا حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کا اسم گرامی بے حد عزت سے لیتے - ایک دن میں {مولانا محمد اسحق} ان کی خدمت میں حاضر تھا - جماعت اہلحدیث کی تنظیم کے متعلق گفتگو شروع ہوئی - بڑے دردناک لہجہ میں فرمایا - مولوی اسحاق ! جماعت اہلحدیث کو حضرت امام ابو حنیفه رحمه الله کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ہر شخص ابو حنیفه ، ابو حنیفه کہہ رہا ہے کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابو حنیفه کہہ دیتا ہے - پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین {03} حدیثیں جانتے تھے یا زیادہ سے زیادہ گیارہ {11} - اگر کوئی بہت بڑا احسان کرے تو وہ انہیں سترہ {17} حدیثوں کا عالم گردانتے ہے - جو لوگ اتنے جلیل القدر {تابعی} امام کے بارہ میں یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد و یکجہتی کیونکر پیدا ہوسکتی ہے "یا غربة العلم انما اشکوبثی و حزنی الی الله" {داؤد غزنوی ص 127}
حضرت مفتی حسن نے ایک بار مولانا عبدالجبار غزنوی کی ولایت کا ایک واقعہ سنایا - وہ واقعہ یوں تھا کہ امرتسر میں ایک محلہ تیلیاں تھا جس میں اہلحدیث حضرات کی اکثریت تھی - وہاں عبد العلی نامی ایک مولوی امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے - وہ مدرسہ غزنویہ میں مولانا عبدالجبار غزنوی سے پڑھا کرتے تھے - ایک بار مولوی عبد العلی نے کہا کہ ابوحنیفه سے تو میں اچھا ہوں اور بڑا ہوں کیونکہ انہیں صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں اور مجھے ان سے کہیں زیادہ یاد ہیں - اس بات کی اطلاع مولانا عبد الجبار کو پہنچی ، وہ بزرگوں کا نہایت ادب و احترام کیا کرتے تھے - انہوں نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا انہوں نے حکم دیا کہ اس نالائق {عبد العلی} کو مدرسے سے نکال دو وہ طالب علم جب مدرسے سے نکالا گیا تو مولانا عبد الجبار غزنوی نے فرمایا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ عنقریب مرتد ہوجاۓ گا - مفتی محمد حسن "راوی" ہیں {اس واقعہ کے} کہ ایک ہفتہ نہ گزرا تھا کہ وہ شخص مرزائی ہوگیا اور لوگوں نے اسے ذلیل کرکے مسجد سے نکال دیا - اس واقعہ کے بعد کسی نے مولانا عبد الجبار غزنوی سے سوال کیا حضرت! آپ کو یہ کیسے علم ہوگیا تھا کہ وہ عنقریب کافر ہوجائے گا - فرمانے لگے کہ جس وقت مجھے اسکی گستاخی کی اطلاع ملی اس وقت بخاری شریف کی یہ حدیث میرے سامنے آگئی کہ "من عادی لی ولیا فقد آذنته بالحرب" {حدیث قدسی} جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں - میری نظر میں امام ابو حنیفه رحمه الله "ولی الله" تھے - جب الله کی طرف سے اعلان جنگ ہوگیا تو جنگ میں ہر فریق دوسرے کی اعلی چیز کو چھینتا ہے اس لئے ایسے شخص کے پاس ایمان کیسے رہ سکتا تھا {داؤد غزنوی ص 191،192}
نمبر {04} نوٹ: اسی طرح امرتسر میں سب سے پہلے عمل بالحدیث شروع کرنے والے حافظ محمد یوسف صاحب ڈپٹی کلکٹر پنشنر مرزا غلام احمد قادیانی کے موید و حامی بن گئے {اشاعة السنة ص 114 ج 21}
نمبر {05} مولانا محبوب احمد صاحب امرتسری لکھتے ہیں: جہاں تک مجھے علم ہے وہ یہ ہے کہ امرتسر و گرد و نواح میں جس قدر مرتد عیسائی ہیں یہ پہلے غیرمقلد ہی تھے {الکتاب المجید ص 8}
نمبر {06} مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے دل میں بھی امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے بارہ می ایک دفعہ کچھ غبار آگیا تھا ، خود لکھتے ہیں: {میں نے} حضرت امام صاحب رحمه الله کے متعلق تحقیقات شروع کیں تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر کچھ غبار آگیا جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا یکایک میرے سامنے گھپ اندھیرا چھاگیا - گویا "ظلمات بعضها قوق بعض" کا نظارہ ہوگیا معآ خدا تعالی نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے بدظنی کا نتیجہ ہے اس سے استغفار کروں میں نے کلمات دھرانے شروع کئے وہ اندھیرے فورآ کافور ہوگئے اور ان کے بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کردیا - اس وقت سے میری حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے حسن عقیدت اور زیادہ بڑھ گئی اور میں ان شخصوں سے جن کو حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے حسن عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں کہ میری اور آپ کی مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالی منکرین معارج قدسیہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے "أفتما رونه علی مایری" میں نے جو کچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے "ھذا والله ولی الهدايث خاتمة الکلام" اب میں اس مضمون کو ان کلمات پر ختم کرتا ہوں اور اپنے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وه بزرگان دین سے خصوصا ائمه متبوعین سے حسن ظن رکھیں اور گستاخی اور بے ادبی سے پرہیز کریں کیونکہ اس کا نتیجہ ہر دو جہاں میں مؤجب خسران و نقصان ہے "نسئل الله الکریم حسن الظن والتادب مع الصالحین ونعوذ بالله العظیم من سوء الظن بهم فانه عرق الرفض والخروج و علامة المعاقین و لنعم ماقیل"
از خدا خواہیم توفیق ادب
بے ادب محروم شد
از لطف ر
{تاریخ اہلحدیث صفحہ 79}
نمبر {09} مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے فرمایا مولانا ثناء الله مرحوم امرتسری نے مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں ، میں کانپور میں مولانا احمد حسن صاحب کانپوری سے علم منطق کی تحصیل کرتا تھا اختلاف مذاق و مشرب کے سبب سے احناف سے میری گفتگو رہتی تھی - ان لوگوں نے مجھ پر یہ الزام تھوپا تھا کہ تم عرفی اہلحدیث لوگ ائمه دین کے حق میں بے ادبی کرتے ہو میں نے اس کے متعلق حضرت میاں صاحب مرحوم دہلوی یعنی شیخ الکل حضرت سید نذیر حسین صاحب مرحوم سے دریافت کیا تو آپ نے جواب میں کہا کہ ہم ایسے شخص کو جو ائمه دین کے حق میں بے ادبی کرے چھوٹا رافضی جانتے ہیں ، علاوہ بریں میاں صاحب مرحوم {معیار الحق} میں امام صاحب رحمه الله کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں - ملاحظہ فرمائے "إمامنا و سیدنا أبوحنیفة النعمان أفاض الله علیه شابیب العفو والغفران" نیز فرماتے ہیں ان {امام صاحب} کا مجتہد ہونا اور متبع سنت اور متقی اور پرہیزگار ہونا کافی ہے - ان کے فضائل میں آیت کریمه "ان اکرمکم عند الله اتقاکم" زینت بخش مراتب ان کے لئے ہیں {حاشیہ تاریخ اہلحدیث ص 80}
نمبر {08} مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی فرماتے - ہیں ، ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں اور اپنے صالح اساتذہ جناب مولانا ابو عبد الله غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اور جناب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم محدث وزیر آباد کی صحبت و تلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصآ حضرات ائمه متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہی {تاریخ الحدیث ص 79}
نمبر {09} مولانا محمد ابراہیم صاحب حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی کے متعلق لکھتے ہیں آپ ائمه دین کا بہت ادب کرتے تھے - چناچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ائمه دین اور خصوصآ امام ابو حنیفه رحمه الله کی بے ادبی کرتا ہے ، اسکا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا {تاریخ اہلحدیث ص 428}
نمبر {10} نعیم بن حماد خزاعی حضرت امام بخاری رحمه الله کے اساتذہ میں ہیں "وضع کتبا فی الرد علی الحنفیه" جس نے حنفیوں کے رد میں کئی کتابیں تصنیف کیں - یہ شخص امام صاحب کے حسد میں یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ جھوٹی حدیثیں بھی گھڑلیا کرتا تھا اور امام صاحب کی عیب گوئی میں جھوٹی حکایتیں بھی گھڑلیتا جو سب کی سب جھوٹ ہیں {میزان الاعتدال ص 536 ج 2 ، تہذیب التهذيب صفحہ 463 ج 2 ، نهاية السئول فی رواة السنة الاصول بحوالہ تاریخ اہلحدیث ص70 {داؤد غزنوی ص 378} مولانا سیالکوٹی نے مکمل بحث کے بعد لکھا کہ نعیم کی شخصیت ایسی نہیں کہ اسکی روایت کہ بناء پر حضرت امام اعظم ابوحنیفه رحمه الله جیسے بزرگ "امام" کے حق میں بدگوئی کریں جن کو حافظ شمس الدین ذہبی رحمه الله جیسے ناقد الرجال "امام اعظم" کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں - حافظ ابن کثیر "البدایہ" میں آپکی نہایت تعریف کرتے ہیں ، آپکے حق میں لکھتے ہیں "احد ائمة الإسلام و السادة الأعلام وأحد أرکان العلما وأحد الائمة الأربعة أصحاب المذاھب المتبوعة الخ - نیز امام یحیی بن معین رحمه الله سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ آپ {ابو حنیفه رحمه الله} ثقہ تھے ، اہل الصدق سے تھے کذب سے مہتم نہ تھے ، نیز عبد الله بن داؤد الخریبی رحمه الله سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا لوگوں کو مناسب ہے کہ اپنی نمازوں میں حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے لئے دعا کیا کریں کیونکہ انہوں نے ان پر فقہ اور سنن {نبویہ} کو محفوظ رکھا {البدایہ صفحہ ص 107 ، تاریخ اہلحدیث} یہ شخص {نعیم بن حماد} گرفتار ہوا اور وہیں فوت ہوا "فجر باقیادة" {ہتھکڑیوں سمیت} "فالقی فی حضرة ولم یکفن ولم یصل علیه فعل ذالك به صاحب ابن داؤد" {تاریخ بغداد ص 314} دیکھئے گستاخ امام ، نمازہ جنازہ اور کفن اور قبر تک سے محروم رہا
نمبر {11} عالم باعمل فاضل اکمل حضرت مولانا سید تجمل حسین رحمه الله بہاری لکھتے ہیں: ایک غیرمقلد مولوی محمد ابراہیم صاحب آروری مکہ مکرمہ گئے اور حضرت قبلہ عالم مولانا سید شاہ محمد علی صاحب رحمه الله مونگیری بھی وہیں تھے - مولانا محمد ابراہیم صاحب نے کہا کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی مجلس خواب میں میری حاضری ہوئی اور مجلس مبارک میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله بھی تشریف فرما تھے جناب رسالت مآب صلی الله علیه وسلم نے مجھے فرمایا کہ تم ان یعنی حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے بدظن ہو قصور معاف کراؤ - میں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے قدموں پر گرکر معاف کرایا {کمالات صفحہ 17}
نمبر {12} ایک غیرمقلد طالب علم مدرسہ دیوبند میں پڑھتا تھا - اس نے حضرت امام محمد رحمه الله کی شان میں گستاخی کی اس پر اور طالب علموں نے اسے پیٹ ڈالا - اس واقعہ کی مولانا نذیر حسین سے شکایت بھی کی حضرت والا نے فرمایا کہ اس نے امام محمد رحمه الله کی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کئے تھے ، اس پر طلباء کو غصہ آگیا یہ سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ واقعی یہ اس کی بڑی بے جا حرکت تھی {داؤد غزنوی صفحہ 380}
نمبر {13} آرہ میں بیٹھے ہوئے ایک غیرمقلد نے دوران گفتگو حضرت ابن ہمام رحمه الله کی کچھ تنقیص کی - مولانا نذیر حسین صاحب نے اسے ڈانٹا کہ یہ بڑے لوگ تھے ہمارا منہ نہیں کہ ان کی شان میں کچھ کہہ سکیں {داؤد غزنوی صفحہ 380} "الناس فی ابی حنیفة حاسد او جاھل" یعنی حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے حق میں بری رائے رکھنے والے کچھ لوگ تو حاسد ہیں اور کچھ انکے مقام سے بے خبر ہیں {داؤد غزنوی صفحہ 378}
انتخاب : تجلیات صفدر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 211 سے 217 تک
Comment